دہشتگردی

تاجک حکام نے داعش میں شامل ہونے کی کوشش کرنے والے 3 مفرور قیدیوں کو ہلاک کر دیا

از نادین بہرام

جون میں آن لائن پوسٹ کی گئی ایک فوٹو میں، تاجک جنگجوؤں کو الیپو، شام میں دکھایا گیا ہے۔ [نادین بہرام کی حاصل کردہ اودنوکلاسنکی کی فوٹو]

جون میں آن لائن پوسٹ کی گئی ایک فوٹو میں، تاجک جنگجوؤں کو الیپو، شام میں دکھایا گیا ہے۔ [نادین بہرام کی حاصل کردہ اودنوکلاسنکی کی فوٹو]

خجند، تاجکستان – تاجک سیکیورٹی فورسز نے حال ہی میں تین مفرور قیدیوں کو "دولتِ اسلامیہ عراق و شام" (داعش) میں شام ہونے کی ان کی امیدوں کو پورا کرنے سے پہلے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

جیل ٹوٹنے کا واقع، 17 جون کو خجند، صوبہ سغد میں پیش آیا تھا۔ تینوں مفروروں کو اس وقت گولی مار دی گئی تھی جن وہ ابھی جیل کی حدود میں ہی تھے۔ صرف ایک مفرور علاقے سے نکلنے میں کامیاب ہوا تھا۔

حکام کے مطابق، تیسرے مفرور کو 19 جون کو ضلع بابا غفوروف، صوبہ سغد میں ہلاک کیا گیا تھا۔

ایک محافظ کی بلاوجہ ہلاکت

سٹیٹ پینل سروس کے سربراہ، عزت اللہ شریف نے سینٹرل ایشیاء آن لائن کو بتایا کہ تینوں مجرموں نے اپنے طے شدہ منصوبے کا آغاز 17 جون کی شام کو ایک محافظ کو بے دردی سے چھرا گھونپنے سے کیا تھا۔

شریف نے کہا کہ محافظ، یار محمد علی محمدوف، "ہسپتال لے جاتے ہوئے راستے میں انتقال کر گیا تھا۔"

شریف نے کہا کہ ایک نگرانی کی چوکی پر مامور ایک اور محافظ کی مہربانی سے، سازش جلد ہی بے نقاب ہو گئی۔

محافظ نے تینوں مفروروں پر فائر کھول دیا، جس سے ایک موقع پر ہی ہلاک ہو گیا اور دو زخمی ہو گئے۔ ایک زخمی مفرور نے بھاگنا جاری رکھا اور مضافات میں غائب ہو گیا لیکن حکام نے دوسرے مفرور کو جلد ہی دوبارہ گرفتار کر لیا۔ وہ 25 جون کو خجند میں پینل سروس ہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا۔

واحد مفرور جو جیل کی حدود سے بھاگنے میں کامیاب ہوا تھا زیادہ دور نہیں جا پایا۔

"مفرور مجرم کو [19 جون کو] ایک پولیس مقابلے میں ہلاک کیا گیا،" کا اضافہ کرتے ہوئے شریف نے کہا کہ پینل سروس نے "وزارتِ داخلہ [ایم وی ڈی] کے ہمراہ،" مفرور کو ضلع بابا غفوروف میں تلاش کر لیا۔"

داعش میں شمولیت کے ارادے

ایم وی ڈی میں ایک ذریعے نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے سینٹرل ایشیاء آن لائن کو بتایا کہ تینوں مجرم داعش میں شامل ہونے کا ارادہ رکھتے تھے۔ ذریعے نے ہسپتال میں داخل شدید زخمی مفرور کے اقبالِ جرم کا حوالہ دیا۔

سٹیٹ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی (جی کے این بی) کے ایک اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے، آر آئی اے نوووستی نے 18 جون کو بتایا کہ ان کی منزل افغانستان تھی۔

ایم وی ڈی کے ذریعے نے بتایا کہ تینوں مجرم [افغانستان میں داخل ہونے کے لیے] تاجکستان اور کرغیزستان کے درمیان غیر معینہ، غیر حفاظتی سرحد کا فائدہ اٹھانا چاہتے تھے۔"

ذریعے نے مزید کہا کہ مجرموں میں سے دو متعصب انتہا پسند تھے۔ 30 سالہ، مرزا قیوموف عراق میں لڑنے کے جرم میں گزشتہ دسمبر میں سنائی گئی 14 سالہ سزائے قید کاٹ رہا تھا۔ یہ وہ مجرم تھا جو جیل کی حدود میں موقع پر ہلاک ہوا تھا۔

ایم وی ڈی کے ذریعے نے کہا کہ قیوموف "نے جنگی تربیت داعش سے عراق میں حاصل کی تھی۔" بعد ازاں وہ تاجکستان واپس آ گیا ۔۔۔ حکام کے آگے ہتھیار ڈالنے کی بجائے، وہ واپس آنے کے بعد روپوش ہو گیا ۔۔۔ اگر وہ ایم وی ڈی کے پاس اندراج کروا لیتا، تو اسے عام معافی مل سکتی تھی۔"

وہ مفرور جو ضلع بابا غفوروف میں پولیس مقابلے میں ہلاک ہوا، 27 سالہ رمضان اللہ خان داداخانوف 20 سالہ سزائے قید کاٹ رہا تھا جو جنوری 2013 میں سنائی گئی تھی۔

داداخانوف نے شمالی وزیرستان، پاکستان میں جنگجوؤں کے شانہ بشانہ لڑائی میں حصہ لیا تھا۔

ایم وی ڈی کے ذریعے نے کہا کہ داداخانوف "کو [تینوں] دہشت گردوں میں سے سب سے زیادہ خطرناک سمجھا جاتا تھا، کیونکہ اس نے کئی سال ۔۔۔ وزیرستان میں جنگی تربیت حاصل کی تھی۔ وزیرستان سے وطن واپس آنے کے بعد، وہ اپنے والدین کے پاس واپس نہیں گیا ۔۔۔ ہم اسے خطرناک سمجھتے ہیں کیونکہ، اس کے تجربے کے علاوہ، اس کے پاس ایک چاقو تھا۔"

وہ قیدی جو خجند ہسپتال میں ہلاک ہوا تھا، 36 سالہ حبیب جان یوسپوف، 20 سالہ سزائے قید کاٹ رہا تھا جو اکتوبر 2013 میں سنائی گئی تھی۔ اس نے 2003 میں خجند میں ایک کرنسی ڈیلر کو لوٹا اور ہلاک کر دیا تھا۔

ایم وی ڈی کے ذریعے نے کہا کہ اگرچہ یوسپوف ایک عام مجرم تھا اور دہشت گرد نہیں تھا، "وہ بھی کم خطرناک نہیں تھا۔" وہ [قتل کے بعد] 10 برس تک خجند میں روپوش رہا ۔۔۔ اس نے جیل جانے کے بعد داعش میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔"

تاجک قانون کے نفاذ کے اداروں نے صلاحیت کا مظاہرہ کیا

صدرِ جمہوریہ تاجکستان کے ماتحت تزویراتی تحقیقی مرکز کے ڈائریکٹر، خدائی بردے خلیق نذر نے سینٹرل ایشیاء آن لائن کو بتایا کہ جیل کی دیواروں کے اندر انتہاپسندوں کی بھرتی تاجک قانون کی نفاذ کے اداروں کے لیے ایک مسئلہ ہے۔

انتہاپسند گروہوں کے لیے بھرتی کرنے والوں نے یہ احساس کرنا شروع کر دیا ہے کہ ان کی جیلوں کے اندر کام کرنے کی صلاحیت زیادہ ہے، انہوں نے مزید کہا کہ وہ دوسرے قیدیوں کو بھرتی کرتے ہیں۔

خلیق نذر نے کہا، "ہم نے تحقیقات کی ہیں۔ بھرتی کار جان بوجھ کر جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں تاکہ وہ جیل پہنچ جائیں ۔۔۔ وہ دیگر قیدیوں کی دماغ دھلائی کرتے ہیں، انہیں دہشت گرد گروہوں میں شامل ہونے کی ترغیب دیتے ہیں۔"

تاہم، مبصرین اس رفتار کا حوالہ دے رہے ہیں جس رفتار سے تاجک قانون کے نفاذ کے اداروں نے داداجانوف، واحد مفرور جو جیل کی حدود سے باہر نکلا تھا، کا سراغ لگایا۔

دوشنبے کے مقامی دفاعی مشیر قادر عطاء اللئیف نے سینٹرل ایشیاء آن لائن کو بتایا، "[جیل ٹوٹنے سے پیدا ہونے والی] خطرناک صورتحال کی وجہ سے، کرغیزستان نے اپنی سرحدی حفاظت بڑھا دی ہے۔ لیکن ہمارے محافظ افسران نے اس مجرم کو زیادہ دور نہیں جانے دیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کتنے زیادہ تربیت یافتہ ہیں۔"

صوبہ سغد میں عوام پرسکون رہے ہیں۔

خجند کی ایک مکین، سارا سرداروفا نے سینٹرل ایشیاء آن لائن کو بتایا، "پولیس تمام بغلی سڑکوں اور مرکزی راستوں پر موجود ہے۔ ایک زخمی دہشت گرد زیادہ دور نہیں جا سکے گا۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500