حقوقِ نسواں

پاکستانی علماء نے 'غیرت کے نام پر قتل' کے خلاف فتوی جاری کیا

ضیا الرحمٰن

سول سوسائٹی کے سرگرم کارکنوں نے کراچی میں 14 جون کو خواتین کی زندگیاں ختم کرنے والے "غیرت کے نام پر قتل' کے خلاف احتجاج کیا۔ [ضیاء الرحمن]

سول سوسائٹی کے سرگرم کارکنوں نے کراچی میں 14 جون کو خواتین کی زندگیاں ختم کرنے والے "غیرت کے نام پر قتل' کے خلاف احتجاج کیا۔ [ضیاء الرحمن]

کراچی -- حالیہ مہینوں میں ملک کے مختلف حصوں میں عورتوں پر یکے بعد دیگرے ہونے والے حملوں کے بعد، پاکستانی دینی علماء کے ایک گروپ نے ایک فتویٰ جاری کیا ہے جس میں غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کو اسلام کی بنیادی تعلیمات کے خلاف قرار دیا گیا ہے۔

13 جون کو مذہبی جماعتوں کے ایک اتحاد، سنی اتحاد کونسل (ایس آئی سی) سے تعلق رکھنے والے، 40 علماء کرام کے ایک گروپ نے کہا کہ اسلام "غیرت کے نام پر قتل" کو منع کرتا ہے۔

کونسل نے اپنے فتوے میں کہا ہے، "ایسا لگتا ہے کہ ہم بربریت کے دور کی طرف بڑھ رہے۔ عورتوں کو اُن کی پسند کی شادی کرنے پر زندہ جلا دینا اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔"

پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل

ایس آئی سی کے علماء نے یہ فتویٰ مئی اور جون میں غیرت کے نام پر یکے بعد دیگرے ہونے والی ہلاکتوں کے ایک سلسلے کے بعد دیا۔

لاہور میں ایک باپ پر 10 جون کو ان کی مرضی کے بغیر شادی کرنے پر اپنی بیٹی اور اس کے شوہر کو قتل کرنے کا الزام ہے۔ لاہور پولیس نے ایک عورت پر الزام عائد کیا ہے کہ اس ہی ہفتے، خاندان کی اجازت کے بغیر شادی کرنے پر اس نے اپنی بیٹی کو زندہ جلا دیا۔

پولیس نے بتایا کہ 5 مئی کو ایبٹ آباد، خیبر پختونخواہ میں ایک قبائلی کونسل نے ایک 16 سالہ لڑکی کو، جس نے اپنی ایک سہیلی کو آشنا کے ساتھ فرار ہونے میں مدد دی تھی، زبردستی نشہ کرایا، اسکا گلا گھونٹا اور اسے آگ لگا دی۔ پولیس نے 14 افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔

ایس آئی سی کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا نے سینٹرل ایشیا آن لائن کو بتایا، "غیرت کے نام پر کسی بھی ہلاکت کو جائز سمجھنا مُسلمہ عقائِد کے خلاف ہے۔"

اس حقیقت کے مدِنظر کہ پاکستان میں غیرت کے نام پر بہت سی خواتین کو قتل کر دیا جاتا ہے، انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں نے اس فتوے کو سراہا۔

پاکستان کے انسانی حقوق کے کمیشن (ایچ آر سی پی) کے مطابق، گزشتہ سال تقریباً 1،100 ایسی خواتین کو انکے رشتہ داروں نے قتل کر دیا، جن کو انکے اہل خانہ کے لیے باعثِ رسوائی سمجھا گیا تھا۔

ایچ آر سی پی کے نائب چیئرمین اسد اقبال بٹ نے سینٹرل ایشیا آن لائن کو بتایا کہ اس طرح کے قتل کی بہت سی وارداتوں کی اطلاع نہیں دی جاتی۔

انہوں نے کہا، "ایسی عورت کو جان سے مار دینا، خاندان اور قبیلے کی عزت اور وقار کو بحال کرنے کا ایک طریقہ سمجھا جاتا ہے۔"

سول سوسائٹی کے گروپ اس قسم کے قتل کو روکنا چاہتے ہیں۔

14 جون کو مختلف گروپوں سے تعلق رکھنے والے سرگرم کارکنوں نے غیرت کے نام پر ہونے والی قتل کی وارداتوں کی مذمت کرنے کے لیے کراچی پریس کلب کے باہر مظاہرہ کیا۔

ایس آئی سی نے طالبان، اور خودکش بم دھماکوں کے خلاف فتوے جاری کئے ہیں

ماضی میں، ایس آئی سی کے علماء نے طالبان، دہشت گردی اور خودکش بم دھماکوں کے خلاف فتوے جاری کیے ہیں۔

جون 2013 میں جاری ہونے والے ایک فتوے میں کہا گیا ہے، "خودکش حملے اسلام میں حرام ہیں، اور بے گناہ لوگوں کے قتل میں ملوث افراد جہنم کے مستحق ہیں۔"

اسی طرح اکتوبر 2012 میں، ایس آئی سی سے وابستہ کم از کم 50 علماء کرام نے ایک فتوے میں طالبان اور دہشت گرد حملوں کو"غیر اسلامی" قرار دیا۔

طالبان کو جہالت سے متاثر قرار دیتے ہوۓ، اس فتوے میں کہا گیا ہے کہ "طالبان کی اسلام کی تشریح ... شریعت کی مستند تشریح سے انحراف کرتی ہے۔"

اسلامی علماء طالبان کی دھمکیوں کے سامنے جھکنے سے انکار کرتے ہیں۔ جون 2009 میں لاہور میں عسکریت پسندوں نے اسلامی اسکالر مفتی سرفراز نعیمی کو قتل کر دیا تھا۔ ایک مہینہ قبل، طالبان کے اس نڈر دشمن نے اسلامی علماء کی ایک کانفرنس منعقد کرنے میں حکومت کی مدد کی تھی، جس میں خود کش بم دھماکوں اور معصوم افراد کے سر قلم کرنے کی مذمت کرتے ہوۓ اسکو غیر اسلامی قرار دیا گیا تھا۔

غیر اسلامی طریقوں کا مقابلہ

رضا نے کہا کہ یہ دینی علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ طالبان کے مظالم اور غیرت کے نام پر قتل کی حقیقت کے بارے میں پاکستانیوں کی رہنمائی کریں۔

رضا نے سینٹرل ایشیا آن لائن کو بتایا، "یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اسلام مخالف طالبان قوتوں کے خلاف واضح طور پر اٹھ کھڑے ہوں۔"

سلامتی کے تجزیہ کار اتفاق کرتے ہیں کہ دینی علماء خطبات اور فتووں کے ذریعے عوام کو تعلیم دینے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔

اسلام آباد میں مقیم تنازعات کو حل کرنے کے اسکالر، شجاع علی نے سینٹرل ایشیا آن لائن کو بتایا، "ماضی میں، طالبان نے پولیو ویکسین کی مہموں کی مخالفت اور خودکش حملوں اور بے گناہ لوگوں کو قتل کرنے کے جواز میں کئی فتوے جاری کیے تھے۔"

علی نے کہا، "اس طرح کے جعلی فتووں نے، خاص طور پر وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخواہ میں، کسی حد تک کم تعلیم یافتہ لوگوں کو گمراہ کیا تھا۔"

انہوں نے کہا کہ تاہم، حقیقی علماء کرام، جیسے کہ وہ علماء جو ایس آئی سی سے وابستہ ہیں، ایسے جعلی فتووں کا پول کھول سکتے ہیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500