کاروبار

ٹی اے پی آئی سے تنازع سے متاثرہ خطے کے لیے خدشات اور فوائد

جمعہ قلی عینائیف

مئی میں ضلع یولوٹین، صوبہ میری میں زیرِ تعمیر تاپی گیس پائپ لائن دکھائی گئی ہیں۔ [جمعہ قلی عینائیف نے فوٹو حاصل کی]

مئی میں ضلع یولوٹین، صوبہ میری میں زیرِ تعمیر تاپی گیس پائپ لائن دکھائی گئی ہیں۔ [جمعہ قلی عینائیف نے فوٹو حاصل کی]

اشک آباد — وسط اور جنوب ایشیائی قائدین ایک مرتبہ پھر ترکمانستان-افغانستان-پاکستان-انڈیا (تاپی) قدرتی گیس پائپ لائن پر بات چیت کر رہے ہیں۔

اس پائپ لائن کی تعمیر کا آغاز گزشتہ دسمبر میں صوبہ میری، ترکمانستان میں ایک افتتاحی تقریب میں ہوا۔ چاروں ممالک سے اعلیٰ عہدیداران نے تقریب میں شرکت کی۔

توقع ہے کہ 2019 تک یہ پائپ لائن دیگر تین ممالک کو ترکمانستانی گیس کی فراہمی کا آغاز کر دے گی۔

التئین اسئیر ٹی وی نے ”توانائی میں تعاون کے لیے پاکستان کی گہری دلچسپی“ کا حوالہ دیتے ہوئے خبر دی کہ 20 مئی کو اس پائپ لائن پر دوبارہ بات چیت کا آغاز ہوا، جب پاکستانی وزیرِ اعظم میاں محمّد نواز شریف نے اشک آباد میں ترکمانستان کے صدر گربانگلی بردیمخامیدوف سے ملاقات کی۔

29 مئی کو ایک مرتبہ پھر تاپی موضوعِ بحث رہی، جب ترکمانستان کے لیے پاکستان کے از سرِ نو مقرر کیے جانے والے سفیر عبدالمالک نے بردی مخامیدوف کو اپنے کوائف پیش کیے۔

ترکمانستان ریاستی نیوز ایجنسی نے خبر دی کہ مالک نے کہا کہ یہ پائپ لائن ”خطے کے امن و استحکام میں بھرپور کردار ادا کرے گی۔“

بڑے فوائد کی توقع

ترکماننیفتیگازستروئی (ترکمان تیل و گیس تعمیر) کے ایک ترجمان اویزگیلدی چارژیو نے سنٹرل ایشیا آن لائن سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 1,735 کلومیٹر متوقع طوالت کی حامل تاپی، مکمل ہونے پر چاروں متعلقہ ممالک کے لیے گراں قدر فوائد فراہم کرے گی۔

چارژیو نے کہا کہ ترکمانستان اپنے ”راستوں اور گاہکوں میں تنوع لانے ۔۔۔ اور زرِ مبادلہ کا مستحکم بہاؤ پیدا کرنے“ کے لیے پرامید ہے۔

اس وقت، ترکمانستان کے پاس وافر قدرتی گیس ہے لیکن برآمد کے لیے قدیم سوویت پائپ لائن نظام اور دیگر جغرافیائی رکاوٹوں سے مسدود، محدود راستے ہیں۔

چارژیو نے کہا کہ گیس کے بہاؤ کا آغاز ہو جانے پر پاکستان، بھارت اور بطورِ خاص افغانستان بڑے پیمانے پر مستفید ہوں گے۔

کئی دہائیوں سے توانائی کے شدید بحرانوں کا مقابلہ کرنے والے پاکستان اور بھارت، دونوں نے جداگانہ طور پر یومیہ 38 ملین کیوبک میٹر گیس حاصل کرنے کا معاہدہ کیا ہے۔

کلیدی راہداری ملک، افغانستان انہی معاہدوں کے تحت یومیہ 14 ملین کیوبک میٹر وصول کرے گا۔

ترکمان ریاستی ایجنسی برائے انتظام و استعمال ہائڈروکاربن وسائل کے ایک اہلکار، جس نے خود کو محض پیرخات کے طور پر ظاہر کیا، نے سنٹرل ایشیا آن لائن سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قدرتی گیس کے علاوہ افغانستان ٹرانزٹ فیس کی مد میں سالانہ 1 بلین ڈالر (69.4 بلین افغان افغانی) کما سکے گا اور 12,000 ملازمتیں بھی حاصل کرے گا۔

یہ روپیہ اور ملازمتیں غربت اور تقریباً 30 برس سے مسلسل جاری جنگ سے تباہ حال ملک کے لیے نہایت اہم ہو سکتی ہیں۔

سنٹرل ایشیا آن لائن نے جن عہدیداران کا حوالہ دیا، ان سب نے امن و آسودگی کو اس پائپ لائن کے سبب افغانستان کو حاصل ہونے والا بنیادی فائدہ قرار دیا۔

سخت افغان علاقہ

چند تحقیقات کے مطابق، دنیا میں گیس کے چوتھے بڑے ذخائر کا حامل ہوتے ہوئے اس پائپ لائن کو گیس مہیا کرنے کی ترکمانستان کی اہلیت موضوعِ بحث نہیں۔

تاہم، افغانستان میں ہرات اور قندھار، طالبان کی زیادہ سرگرمی کے دو صوبوں، سے پائپ لائن تعمیر کرنا ایک چیلنج پیش کرتا ہے۔

ترکمانستان کی ریاستی ملکیت گیس اجارہ داری کے گیس ٹرانسپورٹ شعبہ، ترکمان ٹرانس گیس کے سربراہ تجزیہ کار انّامئیرات خلیلوف نے سنٹرل ایشیا آن لائن سے بات کرتے ہوئے کہا، ”افغانستان کی طویل عرصے سے متاثرہ سرزمین میں مکمل اور دیرپا امن آنے تک تاپی کی تمام بات چیت اور اس کی تکمیل محض الفاظ ہی رہیں گے۔“

خلیلوف نے کہا، ”ہم جانتے ہیں کہ ۔۔۔ [دہشتگرد] گروہ ریلویز، پاور لائنز اور قدرتی گیس پائپ لائنز اور دیگر تنصیبات کو اڑا دیتے ہیں۔“

نتیجتاً افغانستان نقصان اٹھا سکتا ہے۔

مبینہ طور پر حکام ازبکستان یا یہاں تک کہ قازقستان سے پائپ لائن گزارنے کے لیے از سرِ نو راستہ تشکیل دینے پر غور کر رہے ہیں۔

تاہم، اگر تعمیر منصوبے کے مطابق، جاری رہتی ہے تو پائپ لائن کا 773 کلومیٹر حصہ افغانستان سے گزرے گا۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500