دہشتگردی

ملا منصور کی ہلاکت کے بعد افغان مہاجرین امن کے لیے پُرامید

از اشفاق یوسفزئی

6 جون کو پشاور میں حیات آباد کے قریب ایک افغان مہاجر اپنا ٹھیلہ دھکیلتے ہوئے۔ [اشفاق یوسفزئی]

6 جون کو پشاور میں حیات آباد کے قریب ایک افغان مہاجر اپنا ٹھیلہ دھکیلتے ہوئے۔ [اشفاق یوسفزئی]

پشاور - طالبان رہنماء ملا اختر محمد منصور کی ہلاکت کے بعد، افغان مہاجرین یہ دلیل دیتے ہوئے امن کے لیے امید کا اظہار کر رہے ہیں کہ اس نے ان کے ملک میں امن کی بین الاقوامی کوششوں کو روک رکھا تھا۔

منصور مئی میں مارا گیا تھا۔

بورڈ بازار، پشاور میں ایک افغان تاجر، مرزا محمد نے کہا، "ملا منصور افغانستان میں امن کی کوششوں کے سخت خلاف تھا لیکن ہم پورے خطے کی بہتری کے لیے جنگ ختم کرنا چاہتے ہیں۔"

اپنے وطن میں عسکریت پسندی کی وجہ سے 3 ملین سے زائد افغان شہری پچھلے تین عشروں سے پاکستان میں مقیم ہیں۔

محمد نے کہا کہ جب تک طالبان جنگجو زندہ ہیں، افغانستان کا بحران ختم نہیں ہو گا۔ انہوں نے سینٹرل ایشیاء آن لائن کو بتایا، "ہم اتحادی فوجوں سے یہ چاہتے ہیں کہ وہ افغانستان سے نکلنے سے قبل طالبان کو مکمل طور پر ختم کر دیں۔"

انہوں نے کہا، "ہم نے طالبان رہنماء کی ہلاکت پر سکھ کا سانس لیا ہے، [اور] طالبان کی پوری قیادت کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیئے۔"

44 سالہ محمد مرزا، جو ناصر باغ روڈ، پشاور پر ایک تندور چلاتے ہیں، نے سینٹرل ایشیاء آن لائن کو بتایا کہ انہیں ملا منصور کی ہلاکت کے بارے میں سن کر خوشی ہوئی کیونکہ طالبان رہنماء امن کا مخالف تھا اور فساد کو جاری رکھنا چاہتا تھا۔

انہوں نے کہا، "ہم طالبان کا احترام کیسے کر سکتے ہیں جو دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری بخوشی قبول کرتے ہیں جن میں ہمارے ہم وطن شہید ہوئے ہیں؟ طالبان کسی ہمدردی کے مستحق نہیں ہیں۔"

طالبان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں

تاہم، پشاور کے مقامی دفاعی ماہر بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ نے ملا منصور کی ہلاکت پر بہت زیادہ رجائیت پسندی محسوس کرنے کے خلاف متنبہ کیا۔

انہوں نے سینٹرل ایشیاء آن لائن کو بتایا، "طالبان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ طالبان کے نئے سربراہ، ملا ہیبت اللہ نے فوری طور پر اعلان کیا ہے کہ وہ افغان فورسز کے خلاف لڑے گا، جس کا مطلب ہے کہ لوگوں کی مشکلات جاری رہیں گی۔"

شاہ نے کہا کہ طالبان جنگجو امن کی عالمی کوششوں میں رکاوٹ رہے ہیں۔ "طالبان امن نہیں چاہتے اور ہمیشہ اپنے مخالفین کے خلاف طاقت استعمال کرتے ہیں۔"

انہوں نے کہا، "طالبان عوام نے کئی برسوں سےطالبان کے ہاتھوں مشکلات اٹھائی ہیں۔ جب بھی مشہور طالبان رہنماء ہلاک ہوتے ہیں تو وہ کبھی بھی عسکریت پسندی میں کوئی کمی محسوس نہیں کرتے۔"

انہوں نے مزید کہا، لہٰذا، افغان عوام طالبان جنگجوؤں سے بیزار ہو چکے ہیں اور وہ ان سب کو ہلاک کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر ایک کارروائی چاہتے ہیں۔

کابل کی ایک برتنوں کی دکان کے مالک، ہاشم زادہ نے کہا کہ عسکریت پسندوں نے آبادی کو بھکاری بنا دیا ہے، خواتین کو بیوائیں اور بچوں کو یتیم بنا دیا ہے۔

انہوں نے سینٹرل ایشیاء آن لائن کو بتایا، "کابل میں، ہزاروں خواتین اور بچوں کو مارکیٹ میں بھیک مانگتے دیکھا جا سکتا ہے کیونکہ ان کے شوہر اور والد دہشت گردی کے طویل عرصے میں مارے جا چکے ہیں۔"

ہاشم زادہ نے کہا یہ ایک واقعی اچھی خبر ہے کہ طالبان کا رہنماء مارا گیا ہے، لیکن یہ جنگ زدہ ملک میں امن قائم کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا، "طالبان کی بے رحمی کی وجہ سے ہمارے عوام لگاتار ان کی مذمت کر رہے ہیں۔ وہ لوگوں کی زندگیوں کو قابلِ رحم بنانے کے لیے عوامی سواریوں، اسکولوں اور ہسپتالوں پر حملے کرتے ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ افغان عوام اپنی لامحدود مشکلات کے لیے طالبان کی متفقہ طور پر مذمت کرتے ہیں اور ترقی کے لیے ان کا صفایا چاہتے ہیں۔

پاکستانی کالم نگار خادم حسین نے کہا کہ افغان عوام طالبان عسکریت پسندوں کی مذمت کرنے میں حق بجانب ہیں۔

انہوں نے سینٹرل ایشیاء آن لائن کو بتایا، "تمام افغان دہشت گرد نہیں ہیں، جیسا کہ [کچھ] لوگوں کی جانب سے سمجھا جاتا ہے لیکن طالبان کی بداطواریوں نے پوری قوم کو بدنام کر دیا ہے۔"

انہوں نے کہا، "یہاں تک کہ پاکستان میں بھی مقامی لوگوں کی جانب سے انہیں حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور دہشت گرد سمجھا جاتا ہے۔"

خادم حسین نے کہا کہ ملا منصور کی ہلاکت پورے خطے میں قیامِ امن کی طرف ایک بڑا قدم ہے۔

امن کے لیے ایک مشترکہ ذمہ داری

پاکستانی بھی طالبان رہنماء کی ہلاکت پر خوش ہیں اور اسے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک بڑی کامیابی تصور کرتے ہیں۔

وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) کے ایک اسکول کے استاد، ہارون خان نے کہا کہ جنوبی ایشیاء میں ترقی کے لیے افغانستان میں امن لازمی ہے۔

انہوں نے سینٹرل ایشیاء آن لائن کو بتایا، "یہ پاکستانیوں اور افغانوں دونوں کی ذمہ داری ہے کہ اپنے اپنے ملک میں امن کی خاطر طالبان جنگجوؤں کے خلاف جنگ لڑیں۔"

انہوں نے کہا، "افغان مہاجرین کی اپنے وطن کو باعزت واپسی کا راستہ کھولنے کے لیے ہم طالبان کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ جب وہ واپس چلے جائیں گے، پاکستان میں اقتصادی صورتحال میں بہتری نظر آئے گی۔"

طالبان کی تعلیم اور حفاظتی ٹیکہ جات کے خلاف مہم کی وجہ سے بچوں کے لیے اسکولوں اور صحت کی دیکھ بھال کی قلت ہے، کا اضافہ کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ افغانوں کی طرح، فاٹا کی آبادی نے بھی طالبان کے ہاتھوں بہت سی مشکلات جھیلی ہیں۔

انہوں نے کہا، "اس لیے، جہاں تک امن کی کوششوں کی کامیابی کا تعلق ہے ملا منصور کی ہلاکت ایک اچھی پیش رفت ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500