دہشتگردی

پاکستان میں مدارس کے مالی ذرائع کی چھان بین

آمنہ ناصر جمال

2015 میں کراچی کے ایک مدرسے میں نوجوان پاکستانی اپنے مدرس کو سن رہے ہیں۔ [آمنہ ناصر جمال]

2015 میں کراچی کے ایک مدرسے میں نوجوان پاکستانی اپنے مدرس کو سن رہے ہیں۔ [آمنہ ناصر جمال]

کراچی -- پاکستان میں مدارس کے لئے رجسٹریشن کے قوانین سخت کیے جا رہے ہیں اور دہشت گردی کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات کی نشاندہی کرنے کے لیے ان کی مالی امداد کے ذرائع کی نگرانی سخت کی جا رہی ہے۔

یہ قدم، اسلام آباد کی طرف سے دسمبر 2014 میں انسداد دہشت گردی کی پالیسی کے تحت نافذ کیے گئے قومی ایکشن پلان (این اے پی) کی تعمیل کا حصّہ ہے۔

کراچی پولیس کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل، ثناء اللہ عباسی نے سینٹرل ایشیا آن لائن کو بتایا، "مدارس کے مالی ذرائع اور اخراجات کو جاننے کے لئے ... سندھ پولیس نے [مدارس] کے مالی معاملات کی جانچ پڑتال شروع کر دی ہے۔"

انہوں نے کہا، "اس عمل میں وقت لگے گا۔ ہم اُن تمام مدارس کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں جن کے عسکریت پسندوں سے رابطے ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ سندھ پولیس نے حال ہی میں صوبے کے مدارس کی جیو ٹیگنگ مکمل کی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس عمل سے انہیں کسی بھی غیر قانونی مالی امداد پر نظر رکھنے میں مدد ملے گی۔

انہوں نے کہا، "تمام صوبے کے مدارس کی جیو ٹیگنگ اور مالیاتی ڈیٹا بیس تیار کرنے کے لیے ایک طویل مدت حاہیئے۔"

انتہاپسندوں کی تلاش

محکمہ داخلہ سندھ کی مئی کی ایک پریس ریلیز کے مطابق، صوبے کی جیو ٹیگنگ سے معلوم ہوا ہے کہ صرف کراچی میں 3،110 "مدارس" ہیں۔

اس بیان میں کہا گیا ہے، "پولیس نے دہشت گرد تنظیموں سے مبینہ تعلقات رکھنے کے لیے 49 مدارس کی نشاندہی کی تھی۔ حکام نے اپریل میں ان کے خلاف کاروائی کی۔"

عباسی نے کہا کہ دسمبر 2014 میں این اے پی کے اجراء کے بعد سے، سندھ پولیس نے کاروائی کرتے ہوۓ ایسے 167 مدارس کو سربمہر کر دیا جن کا اندراج نہیں کرایا گیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ دہشت گردی کو سہولت فراہم کرنے کے خاتمے کے لیے، صوبے کو فوری طور پر مدرسوں کے اندراج کے قوانین میں اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا، "ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مدارس کو قانونی طور پر انکی مالی امداد کے تمام ذرائع کا اعلان کرنے کا پابند بنائیں۔"

غیر ملکی مالی امداد کی تفتیش

پاکستانی وزارت داخلہ کے سیکریٹری، عارف خان نے سینٹرل ایشیا آن لائن کو بتایا کہ تفتیش کاروں کو معلوم ہوا ہے کہ پاکستان میں 285 مدارس تقریباً 10 ممالک سے مالی امداد حاصل کرتے ہیں۔

خان نے کہا، "یہ معلومات حاصل کرنے کے لیے کہ مدارس کو پیسے کی بلا ضابطہ منتقلی کو کیسے روکا جاۓ"، پاکستانی حکام نے حال ہی میں ان ممالک کے سفیروں کے ساتھ صلاح مشورے کیے ہیں۔

خان نے کہا کہ ان 285 مدارس میں پنجاب میں یہ تعداد سب سے زیادہ ہے – 147۔ صوبہ سندھ میں ایک ہے۔

انہوں نے کہا کہ تمام مالی امداد دہشت گردی میں استعمال نہیں ہوتی۔

انہوں نے کہا، "بعض مدارس قانونی طور پر مالی امداد حاصل کرتے ہیں اور غیر ملکی سرپرستوں کے پاس جا کر یہ رقم جمع کرتے ہیں۔"

حکام کے پاس یہ تعین کرنے کے ذرائع کی کمی ہے کہ آیا کسی مدرسے میں غیر ملکی فنڈنگ دہشت گردی کی مالی مدد کرتی ہے یا نصاب کی تیاری اور صلاحیت کی تعمیر کی طرح کے جائز مقاصد میں استعمال ہوتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا، "[سندھ میں] صرف تین یا چار مدارس [غیرملکی] رقم بینکوں کے ذریعے قانونی طور پر منتقل کرتے ہیں۔" انہوں نے مزید بتایا کہ دوسرے مدارس مختلف ذرائع استعمال کرتے ہیں، جن کا سراغ لگانا زیادہ مشکل ہے۔

انہوں نے کہا کہ بینک استعمال کرنے والے مدارس میں سے دو کی قابلِ ذکر مستقل غیر ملکی آمدنی ہے: 2.5 ملین روپے (23،894 امریکی ڈالر) اور 3 ملین روپے (28،673 امریکی ڈالر) فی سال۔

مجوزہ قانون سازی اس غیر قانونی مالی امداد کو روک سکتی ہے

سندھ حکومت کے قانونی مشیر بیرسٹر مرتضیٰ وہاب صدیقی نے سینٹرل ایشیاء آن لائن کو بتایا کہ شفافیت کے حصول کے لیے، "حکومت سندھ صوبائی اسمبلی میں مدارس کا اندراج ایک بالکل نئے عمل کے تحت کرنے کے ایک مجوزہ قانون کو متعارف کرانے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔"

انہوں نے کہا کہ اگر نافذ ہو گیا تو یہ 1885 کے ایک قانون کی جگہ لے لے گا۔

انہوں نے کہا کہ یہ مجوزہ قانون سندھ کے داخلہ اور مذہبی امور کے محکموں کو مدارس کے اندراج کرنے کے لئے مکمل طور پر ذمہ دار بنا دے گا۔

پہلے سے رجسٹرڈ مدارس کو دوبارہ اندراج کرانا پڑے گا۔

"انہوں نے کہا، "یہ مجوزہ قانون مدارس کو صرف تعلیم فراہم کرنے تک محدود کر دے گا۔"

انہوں نے کہ توقع ہے کہ حکومت سندھ "مدارس کا اندراج کرانے کے لیے تمام مکاتب فکر کے علماء کے ساتھ رابطہ کرے گی۔"

حکام فرقہ وارانہ تشدد اور اس کے ساتھ ساتھ بھڑکانے کو کم کرنے کے لئے کام کر رہے ہیں۔

وزیر اعلی سندھ کے مشیرِ مذہبی امور، عبدالقیوم سومرو نے سینٹرل ایشیا آن لائن کو بتایا، "خطبات کے دوران نفرت انگیز تقریر اور راۓ زنی کو روکنے کے لئے، ہم جائز خطبات کے لیے [صوبائی] کوڈ کو حتمی شکل دے رہے ہیں۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500